سورة ذاریات

استمع

Urdu اردو

سورة ذاریات - عدد الآيات 60

وَٱلذَّ ٰ⁠رِیَـٰتِ ذَرۡوࣰا ﴿١﴾

قسم ہے بکھیرنے والیوں کی اڑا کر.(1)

(1) اس سے مراد ہوائیں ہیں جو مٹی کو اڑا کر بکھیر دیتی ہیں۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَٱلۡحَـٰمِلَـٰتِ وِقۡرࣰا ﴿٢﴾

پھر اٹھانے والیاں بوجھ کو.(1)

(1) وَقْرٌ ہر وہ بوجھ جسے کوئی جاندار لے کر چلے، حاملات سے مراد وہ ہوائیں ہیں جو بادلوں کو اٹھائے ہوئے ہیں، یاپھر وہ بادل ہیں جو پانی کا بوجھ اٹھائے ہوتے ہیں جیسےچوپائے، حمل کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَٱلۡجَـٰرِیَـٰتِ یُسۡرࣰا ﴿٣﴾

پھر چلنے والیاں نرمی سے.(1)

(1) جَارِيَاتٌ، پانی میں چلنے والی کشتیاں، يُسْرًا آسانی سے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَٱلۡمُقَسِّمَـٰتِ أَمۡرًا ﴿٤﴾

پھر کام کو تقسیم کرنے والیاں.(1)

(1) مُقَسِّمَاتٌ اس سےمراد وہ فرشتے ہیں جو کاموں کو تقسیم کر لیتے ہیں۔ کوئی رحمت کا فرشتہ ہے تو کوئی عذاب کا، کوئی پانی کا ہے تو کوئی سختی (قحط سالی وغیرہ) کا، کوئی ہواؤں کا فرشتہ ہے تو کوئی موت اور حوادث کا۔ بعض نے ان سب سے صرف ہوائیں مراد لی ہیں اور ان سب کو ہواؤں کی صفت بنایا ہے، جیسے فاضل مترجم نے بھی اسی کے مطابق ترجمہ کیا ہے۔ لیکن ہم نے امام ابن کثیر اور امام شوکانی کی تفسیر کے مطابق تشریح کی ہے۔ قسم سے مقصد مقسم علیہ کی سچائی کو بیان کرنا ہوتا ہے یا بعض دفعہ صرف تاکید مقصود ہوتی ہے اور بعض دفعہ مقسم علیہ کو دلیل کے طور پر پیش کرنا مقصود ہوتا ہے۔ یہاں قسم کی یہی تیسری قسم ہے۔ آگے جواب قسم یہ بیان کیا گیا ہے کہ تم سے جو وعدے کیے جاتے ہیں یقیناً وہ سچے ہیں اور قیامت برپا ہو کر رہے گی جس میں انصاف کیا جائے گا۔ یہ ہواؤں کا چلنا، بادلوں کا پانی کو اٹھانا، سمندروں میں کشتیوں اور فرشتوں کا مختلف امور کو سرانجام دینا، قیامت کے وقوع پر دلیل ہے، کیونکہ جو ذات یہ سارےکام کرتی ہے جو بظاہر نہایت مشکل اور اسباب عادیہ کےخلاف ہیں، وہی ذات قیامت والے دن تمام انسانون کو دوبارہ زندہ بھی کر سکتی ہے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

إِنَّمَا تُوعَدُونَ لَصَادِقࣱ ﴿٥﴾

یقین مانو کہ تم سے جو وعدے کیے جاتے ہیں (سب) سچے ہیں.


Arabic explanations of the Qur’an:

وَإِنَّ ٱلدِّینَ لَوَ ٰ⁠قِعࣱ ﴿٦﴾

اور بیشک انصاف ہونے واﻻ ہے.


Arabic explanations of the Qur’an:

وَٱلسَّمَاۤءِ ذَاتِ ٱلۡحُبُكِ ﴿٧﴾

قسم ہے راہوں والے آسمان کی.(1)

(1) دوسرا ترجمہ، حسن وجمال اور زینت ورونق والا کیا گیا ہے، چاند،سورج ، کواکب وسیارات، روشن ستارے، اس کی بلندی اور وسعت، یہ سب چیزیں آسمان کی رونق وزینت اور خوب صورتی کا باعث ہیں۔


Arabic explanations of the Qur’an:

إِنَّكُمۡ لَفِی قَوۡلࣲ مُّخۡتَلِفࣲ ﴿٨﴾

یقیناً تم مختلف بات میں پڑے ہوئے ہو.(1)

(1) یعنی اے اہل مکہ ! تمہارا کسی بات میں آپس میں اتفاق نہیں ہے۔ ہمارے پیغمبر کو تم میں سے کوئی جادوگر، کوئی شاعر، کوئی کاﮨﻦ اور کوئی کذاب کہتا ہے۔ اسی طرح کوئی قیامت کی بالکل نفی کرتاہے، کوئی شک کا اظہار، علاوہ ازیں ایک طرف اللہ کے خالق اور رازق ہونے کا اعتراف کرتے ہو، دوسری طرف دوسروں کو بھی معبود بنا رکھا ہے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

یُؤۡفَكُ عَنۡهُ مَنۡ أُفِكَ ﴿٩﴾

اس سے وہی باز رکھا جاتا ہے(1) جو پھیر دیا گیا ہو.

(1) یعنی نبی (صلى الله عليه وسلم) پر ایمان لانے سے، یا حق سےیعنی بعث وتوحید سے یا مطلب ہے مذکورہ اختلاف سے وہ شخص پھیر دیا گیا جسے اللہ نے اپنی توفیق سے پھیر دیا، پہلے مفہوم میں ذم ہے۔ دوسرے میں مدح۔


Arabic explanations of the Qur’an:

قُتِلَ ٱلۡخَرَّ ٰ⁠صُونَ ﴿١٠﴾

بے سند باتیں کرنے والے غارت کر دیئے گئے.


Arabic explanations of the Qur’an:

ٱلَّذِینَ هُمۡ فِی غَمۡرَةࣲ سَاهُونَ ﴿١١﴾

جو غفلت میں ہیں اور بھولے ہوئے ہیں.


Arabic explanations of the Qur’an:

یَسۡـَٔلُونَ أَیَّانَ یَوۡمُ ٱلدِّینِ ﴿١٢﴾

پوچھتے ہیں کہ یوم جزا کب ہوگا؟


Arabic explanations of the Qur’an:

یَوۡمَ هُمۡ عَلَى ٱلنَّارِ یُفۡتَنُونَ ﴿١٣﴾

ہاں یہ وه دن ہے کہ یہ آگ پر تپائے جائیں گے.(1)

(1) يُفْتَنُونَ کے معنی ہیں يُحَرَّقُونَ وَيُعَذَّبُونَ، جس طرح سونے کو آگ میں ڈال کر جانچا پرکھا جاتا ہے، اسی طرح یہ آگ میں ڈالے جائیں گے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

ذُوقُواْ فِتۡنَتَكُمۡ هَـٰذَا ٱلَّذِی كُنتُم بِهِۦ تَسۡتَعۡجِلُونَ ﴿١٤﴾

اپنی فتنہ پردازی کا مزه چکھو(1) ، یہی ہے جس کی تم جلدی مچا رہے تھے.

(1) فِتْنَةٌ، بمعنی عذاب یا آگ میں جلنا۔


Arabic explanations of the Qur’an:

إِنَّ ٱلۡمُتَّقِینَ فِی جَنَّـٰتࣲ وَعُیُونٍ ﴿١٥﴾

بیشک تقویٰ والے لوگ بہشتوں اور چشموں میں ہوں گے.


Arabic explanations of the Qur’an:

ءَاخِذِینَ مَاۤ ءَاتَىٰهُمۡ رَبُّهُمۡۚ إِنَّهُمۡ كَانُواْ قَبۡلَ ذَ ٰ⁠لِكَ مُحۡسِنِینَ ﴿١٦﴾

ان کے رب نے جو کچھ انہیں عطا فرمایا ہے اسے لے رہے ہوں گے وه تو اس سے پہلے ہی نیکوکار تھے.


Arabic explanations of the Qur’an:

كَانُواْ قَلِیلࣰا مِّنَ ٱلَّیۡلِ مَا یَهۡجَعُونَ ﴿١٧﴾

وه رات کو بہت کم سویا کرتے تھے.(1)

(1) هُجُوعٌ کے معنی ہیں، رات کو سونا، مَا يَهْجَعُونَ میں ما تاکید کے لئے ہے۔ وہ رات کو کم سوتے تھے، مطلب ہے ساری رات سو کر غفلت اور عیش وعشرت میں نہیں گزار دیتے تھے۔ بلکہ رات کا کچھ حصہ اللہ کی یاد میں اور اس کی بارگاہ میں گڑگڑاتے ہوئے گزارتے تھے۔ جیسا کہ احادیث میں بھی قیام اللیل کی تاکید ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں فرمایا ”لوگو ! لوگوں کو کھانا کھلاؤ، صلۂ رحمی کرو، سلام پھیلاؤ اور رات کو اٹھ کر نماز پڑھو، جب کہ لوگ سوئے ہوئے ہوں، تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے“۔ (مسند احمد 5/ 451)۔


Arabic explanations of the Qur’an:

وَبِٱلۡأَسۡحَارِ هُمۡ یَسۡتَغۡفِرُونَ ﴿١٨﴾

اور وقت سحر استغفار کیا کرتے تھے.(1)

(1) وقت سحر، قبولیت دعا کے بہترین اوقات میں سے ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ (جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور ندا دیتا ہے کہ کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ میں اس کی توبہ قبول کروں؟ کوئی بخشش مانگنے والا ہے کہ میں اسےبخش دوں، کوئی سائل ہے کہ میں اس کے سوال کو پورا کر دوں۔ یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔ (صحيح مسلم، كتاب صلاة المسافرين ، باب الترغيب في الدعاء والذكر في آخر الليل والإجابة فيه)۔


Arabic explanations of the Qur’an:

وَفِیۤ أَمۡوَ ٰ⁠لِهِمۡ حَقࣱّ لِّلسَّاۤىِٕلِ وَٱلۡمَحۡرُومِ ﴿١٩﴾

اور ان کے مال میں مانگنے والوں کا اور سوال سے بچنے والوں کا حق تھا.(1)

(1) محروم سے مراد، وہ ضرورت مند ہے جو سوال سے اجتناب کرتا ہے۔ چنانچہ مستحق ہونے کے باوجود لوگ اسے نہیں دیتے۔ یا وہ شخص ہے جس کا سب کچھ، آفت ارضی وسماوی میں،تباہ ہو جائے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

وَفِی ٱلۡأَرۡضِ ءَایَـٰتࣱ لِّلۡمُوقِنِینَ ﴿٢٠﴾

اور یقین والوں کے لئے تو زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں.


Arabic explanations of the Qur’an:

وَفِیۤ أَنفُسِكُمۡۚ أَفَلَا تُبۡصِرُونَ ﴿٢١﴾

اور خود تمہاری ذات میں بھی، تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو.


Arabic explanations of the Qur’an:

وَفِی ٱلسَّمَاۤءِ رِزۡقُكُمۡ وَمَا تُوعَدُونَ ﴿٢٢﴾

اور تمہاری روزی اور جو تم سے وعده کیا جاتا ہے سب آسمان میں ہے.(1)

(1) یعنی بارش بھی آسمان سے ہوتی ہے جس سے تمہارا رزق پیدا ہوتا ہے اور جنت دوزخ ثواب وعتاب بھی آسمانوں میں ہے جن کا وعدہ کیا جاتا ہے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَوَرَبِّ ٱلسَّمَاۤءِ وَٱلۡأَرۡضِ إِنَّهُۥ لَحَقࣱّ مِّثۡلَ مَاۤ أَنَّكُمۡ تَنطِقُونَ ﴿٢٣﴾

آسمان وزمین کے پروردگار کی قسم! کہ یہ(1) بالکل برحق ہے ایسا ہی جیسے کہ تم باتیں کرتے ہو.

(1) إِنَّهُ میں ضمیر کا مرجع (یہ) وہ امور وآیات ہیں جو مذکور ہوئیں۔


Arabic explanations of the Qur’an:

هَلۡ أَتَىٰكَ حَدِیثُ ضَیۡفِ إِبۡرَ ٰ⁠هِیمَ ٱلۡمُكۡرَمِینَ ﴿٢٤﴾

کیا تجھے ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز مہمانوں کی خبر بھی پہنچی ہے؟(1)

(1) هَلْ استفہام کے لئے ہے جس میں نبی (صلى الله عليه وسلم) کو یہ تنبیہ ہے کہ اس قصے کا تجھے علم نہیں، بلکہ ہم تجھے وحی کے ذریعے سے مطلع کر رہے ہیں۔


Arabic explanations of the Qur’an:

إِذۡ دَخَلُواْ عَلَیۡهِ فَقَالُواْ سَلَـٰمࣰاۖ قَالَ سَلَـٰمࣱ قَوۡمࣱ مُّنكَرُونَ ﴿٢٥﴾

وه جب ان کے ہاں آئے تو سلام کیا، ابراہیم نے جواب سلام دیا (اور کہا یہ تو) اجنبی لوگ ہیں.(1)

(1) یہ اپنے جی میں کہا، ان سے خطاب کرکے نہیں کہا۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَرَاغَ إِلَىٰۤ أَهۡلِهِۦ فَجَاۤءَ بِعِجۡلࣲ سَمِینࣲ ﴿٢٦﴾

پھر (چﭗ چاپ جلدی جلدی) اپنے گھر والوں کی طرف گئے اور ایک فربہ بچھڑے (کا گوشت) ﻻئے.


Arabic explanations of the Qur’an:

فَقَرَّبَهُۥۤ إِلَیۡهِمۡ قَالَ أَلَا تَأۡكُلُونَ ﴿٢٧﴾

اور اسے ان کے پاس رکھا اور کہا آپ کھاتے کیوں نہیں.(1)

(1) یعنی سامنے رکھنےکے باوجود انہوں نے کھانے کی طرف ہاتھ ہی نہیں بڑھایا تو پوچھا۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَأَوۡجَسَ مِنۡهُمۡ خِیفَةࣰۖ قَالُواْ لَا تَخَفۡۖ وَبَشَّرُوهُ بِغُلَـٰمٍ عَلِیمࣲ ﴿٢٨﴾

پھر تو دل ہی دل میں ان سے خوفزده ہوگئے(1) انہوں نے کہا آپ خوف نہ کیجئے(2)۔ اور انہوں نے اس (حضرت ابراہیم) کو ایک علم والے لڑکے کی بشارت دی.

(1) ڈر اس لئے محسوس کیا کہ حضرت ابراہیم (عليه السلام) سمجھے، یہ کھانا نہیں کھا رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آنے والے کسی خیر کی نیت سے نہیں بلکہ شر کی نیت سے آئے ہیں۔ (2) حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے چہرے پر خو ف کے آثار دیکھ کر فرشتوں نے کہا۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَأَقۡبَلَتِ ٱمۡرَأَتُهُۥ فِی صَرَّةࣲ فَصَكَّتۡ وَجۡهَهَا وَقَالَتۡ عَجُوزٌ عَقِیمࣱ ﴿٢٩﴾

پس ان کی بیوی آگے بڑھی اور حیرت(1) میں آکر اپنے منھ پر ہاتھ مار کر کہا کہ میں تو بوڑھیا ہوں اور ساتھ ہی بانجھ.

(1) صَرَّةٍ کے دوسرے معنی ہیں چیخ وپکار، یعنی چیختے ہوئے کہا۔


Arabic explanations of the Qur’an:

قَالُواْ كَذَ ٰ⁠لِكِ قَالَ رَبُّكِۖ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلۡحَكِیمُ ٱلۡعَلِیمُ ﴿٣٠﴾

انہوں نے کہا ہاں تیرے پروردگار نے اسی طرح فرمایا ہے، بیشک وه حکیم وعلیم ہے.(1)

(1) یعنی جس طرح ہم نے تجھے کہا ہے، یہ ہم نے اپنی طرف سے نہیں کہا ہے، بلکہ تیرے رب نے اسی طرح کہا ہے جس کی ہم تجھے اطلاع دے رہے ہیں، اس لئے اس پر تعجب کی ضرورت ہے نہ شک کرنے کی، اس لئے کہ اللہ جو چاہتا ہے وہ لامحالہ ہو کر رہتا ہے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

۞ قَالَ فَمَا خَطۡبُكُمۡ أَیُّهَا ٱلۡمُرۡسَلُونَ ﴿٣١﴾

(حضرت ابرہیم علیہ السلام) نے کہا کہ اللہ کے بھیجے ہوئے (فرشتو!) تمہارا کیا مقصد ہے؟(1)

(1) خَطْبٌ شان قصہ۔ یعنی اس بشارت کے علاوہ تمہارا اورکیا کام اور مقصد ہے جس کے لیے تمہیں بھیجا گیا ہے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

قَالُوۤاْ إِنَّاۤ أُرۡسِلۡنَاۤ إِلَىٰ قَوۡمࣲ مُّجۡرِمِینَ ﴿٣٢﴾

انہوں نے جواب دیا کہ ہم گناه گار قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں.(1)

(1) اس سےمراد قوم لوط ہے جن کا سب سے بڑا جرم لواطت تھا۔


Arabic explanations of the Qur’an:

لِنُرۡسِلَ عَلَیۡهِمۡ حِجَارَةࣰ مِّن طِینࣲ ﴿٣٣﴾

تاکہ ہم ان پر مٹی کے کنکر برسائیں.(1)

(1) برسائیں کا مطلب ہے، ان کنکریوں سے انہیں رجم کردیں۔ یہ کنکریاں خالص پتھر کی تھیں نہ آسمانی اولے تھے، بلکہ مٹی کی بنی ہوئی تھیں۔


Arabic explanations of the Qur’an:

مُّسَوَّمَةً عِندَ رَبِّكَ لِلۡمُسۡرِفِینَ ﴿٣٤﴾

جو تیرے رب کی طرف سے نشان زده ہیں، ان حد سے گزر جانے والوں کے لیے.(1)

- مُسَوَّمَةً (نامزد یا نشان زدہ) ان کی مخصوص علامت تھی جن سے انہیں پہچان لیا جاتا تھا، یا وہ عذاب کےلیے مخصوص تھیں، بعض کہتے ہیں کہ جس کنکری سے جس کی موت واقع ہونی تھی، اس پر اس کا نام لکھا ہوتا تھا مُسْرِفِينَ جو شرک و ضلالت میں بڑھے ہوئے اور فسق و فجور میں حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَأَخۡرَجۡنَا مَن كَانَ فِیهَا مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنِینَ ﴿٣٥﴾

پس جتنے ایمان والے وہاں تھے ہم نے انہیں نکال لیا.(1)

(1) یعنی عذاب آنے سے قبل ہم نے ان کو وہاں سے نکل جانے کا حکم دے دیا تھا تاکہ وہ عذاب سے محفوظ رہیں۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَمَا وَجَدۡنَا فِیهَا غَیۡرَ بَیۡتࣲ مِّنَ ٱلۡمُسۡلِمِینَ ﴿٣٦﴾

اور ہم نے وہاں مسلمانوں کا صرف ایک ہی گھر پایا.(1)

(1) اور یہ اللہ کے پیغمبر حضرت لوط (عليه السلام) کاگﮭر تھا، جس میں ان کی دو بیٹیاں اور کچھ ان پر ایمان لانے والے تھے۔ کہتے ہیں یہ کل تیرہ آدمی تھے ان میں حضرت لوط (عليه السلام) کی بیوی شامل نہیں تھی۔ بلکہ وہ اپنی قوم کے ساتھ عذاب سے ہلاک ہونے والوں میں سے تھی۔ (ایسر التفاسیر) اسلام کے معنی ہیں، اطاعت و انقیاد۔ اللہ کے حکموں پر سر اطاعت خم کر دینے والا مسلم ہے، اس اعتبار سے ہر مومن،مسلمان ہے۔ اسی لیےپہلے ان کے لیے مومن کا لفظ استعمال کیا، اور پھر ان ہی کے لیے مسلم کا لفظ بولا گیا ہے۔ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ ان کے مصداق میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جیساکہ بعض لوگ مومن اور مسلم کے درمیان کرتے ہیں۔ قرآن نے جو کہیں مومن اور کہیں مسلم کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ ان معانی کے اعتبار سے ہے جو عربی لغت کی رو سے ان کے درمیان ہے۔ اس لیےلغوی استعمال کے مقابلے میں حقیقت شرعیہ کا اعتبار زیادہ ضروری ہے اور حقیقت شرعیہ کے اعتبارسےان کے درمیان صرف وہی فرق ہے جو حدیث جبرائیل (عليه السلام) سے ثابت ہے۔ جب نبی (صلى الله عليه وسلم) سے پوچھا گیا کہ اسلام کیا ہے۔ تو آپ نے فرمایا، لا الہٰ الا اللہ کی شہادت، اقامت صلوۃ، ایتائے زکوٰۃ، حج اور صیام رمضان۔ اور جب ایمان کی بابت پوچھا گیا تو فرمایا؟ ”اللہ پر ایمان لانا، اس کے ملائکہ، کتابوں، رسولوں اور تقدیر (خیر وشر کے من جانب اللہ ہونے) پر ایمان رکھنا“ یعنی دل سے ان چیزوں پر یقین رکھنا ایمان اور احکام و فرائض کی ادائیگی اسلام ہے۔ اس لحاظ سے ہر مومن، مسلمان اورہر مسلمان مومن ہے (فتح القدیر) اور جو مومن اورمسلم کے درمیان فرق کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہےکہ یہاں قرآن نے ایک ہی گروہ کے لیے مومن اور مسلم کے الفاظ استعمال کیے ہیں لیکن ان کے درمیان جو فرق ہے اس کی رو سےہر مومن، مسلم بھی ہے، تاہم ہرمسلم کا مومن ہونا ضروری نہیں (ابن کثیر) بہرحال یہ ایک علمی بحث ہے فریقین کے پاس اپنے اپنے موقف پر استدلال کےلیے دلائل موجود ہیں۔


Arabic explanations of the Qur’an:

وَتَرَكۡنَا فِیهَاۤ ءَایَةࣰ لِّلَّذِینَ یَخَافُونَ ٱلۡعَذَابَ ٱلۡأَلِیمَ ﴿٣٧﴾

اور وہاں ہم نے ان کے لیے جو درد ناک عذاب کا ڈر رکھتے ہیں ایک (کامل) علامت چھوڑی.(1)

(1) یہ آیت یا کامل علامت وہ آثار عذاب ہیں جو ان ہلاک شدہ بستیوں میں ایک عرصے تک باقی رہے۔ اور یہ علامت بھی انہی کے لیے ہیں جو عذاب الٰہی سے ڈرنے والے ہیں، کیونکہ وعظ ونصیحت کا اثر بھی وہی قبول کرتے اور آیات میں غور وفکر بھی وہی کرتے ہیں۔


Arabic explanations of the Qur’an:

وَفِی مُوسَىٰۤ إِذۡ أَرۡسَلۡنَـٰهُ إِلَىٰ فِرۡعَوۡنَ بِسُلۡطَـٰنࣲ مُّبِینࣲ ﴿٣٨﴾

موسیٰ (علیہ السلام کے قصے) میں (بھی ہماری طرف سے تنبیہ ہے) کہ ہم نے اسے فرعون کی طرف کھلی دلیل دے کر بھیجا.


Arabic explanations of the Qur’an:

فَتَوَلَّىٰ بِرُكۡنِهِۦ وَقَالَ سَـٰحِرٌ أَوۡ مَجۡنُونࣱ ﴿٣٩﴾

پس اس نےاپنے بل بوتے پر منھ موڑا(1) اور کہنے لگا یہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے.

(1) جانب اقویٰ کو رکن کہتے ہیں۔ یہاں مراد اس کی اپنی قوت اور لشکر ہے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَأَخَذۡنَـٰهُ وَجُنُودَهُۥ فَنَبَذۡنَـٰهُمۡ فِی ٱلۡیَمِّ وَهُوَ مُلِیمࣱ ﴿٤٠﴾

بالﺂخر ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو اپنے عذاب میں پکڑ کر دریا میں ڈال دیا وه تھا ہی ملامت کے قابل.(1)

(1) یعنی اس کے کام ہی ایسے تھے کہ جن پر وہ ملامت کامﺴتﺤﻖ تھا۔


Arabic explanations of the Qur’an:

وَفِی عَادٍ إِذۡ أَرۡسَلۡنَا عَلَیۡهِمُ ٱلرِّیحَ ٱلۡعَقِیمَ ﴿٤١﴾

اسی طرح عادیوں میں(1) بھی (ہماری طرف سے تنبیہ ہے) جب کہ ہم نے ان پر خیر وبرکت سے(2) خالی آندھی بھیجی.

(1) أَيْ : تَرَكْنَا فِي قِصَّةِ عَادٍ آيَةً عاد کے قصے میں بھی ہم نے نشانی چھوڑی۔ (2) الرِّيحَ الْعَقِيمَ (بانجھ ہوا) جس میں خیر وبرکت نہیں تھی، وہ ہوا درختوں کو ثمر آور کرنے والی تھی نہ بارش کی پیامبر، بلکہ صرف ہلاکت اور عذاب کی ہوا تھی۔


Arabic explanations of the Qur’an:

مَا تَذَرُ مِن شَیۡءٍ أَتَتۡ عَلَیۡهِ إِلَّا جَعَلَتۡهُ كَٱلرَّمِیمِ ﴿٤٢﴾

وه جس جس چیز پر گرتی تھی اسے بوسیده ہدی کی طرح (چورا چورا) کردیتی تھی.(1)

(1) یہ اس ہوا کی تاثیر تھی جو قوم عاد پر بطور عذاب بھیجی گئی تھی۔ یہ تند وتیز ہوا، سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل چلتی رہی (الحاقة)۔


Arabic explanations of the Qur’an:

وَفِی ثَمُودَ إِذۡ قِیلَ لَهُمۡ تَمَتَّعُواْ حَتَّىٰ حِینࣲ ﴿٤٣﴾

اور ﺛمود (کے قصے) میں بھی (عبرت) ہے جب ان سے کہا گیا کہ تم کچھ دنوں تک فائده اٹھا لو.(1)

(1) یعنی جب انہوں نے اپنے ہی طلب کردہ معجزے اوٹنی کو قتل کر دیا، تو ان کو کہہ دیا گیا کہ اب تین دن اور تم دنیا کے مزے لوٹ لو، تین دن کے بعد تم ہلاک کر دیے جاؤ گے یہ اسی طرف اشارہ ہے۔ بعض نے اسےحضرت صالح (عليه السلام) کی ابتدائے نبوت کا قول قرار دیا ہے۔ الفاظ اس مفہوم کے بھی متحمل ہیں بلکہ سیاق سے یہی معنی زیادہ قریب ہیں۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَعَتَوۡاْ عَنۡ أَمۡرِ رَبِّهِمۡ فَأَخَذَتۡهُمُ ٱلصَّـٰعِقَةُ وَهُمۡ یَنظُرُونَ ﴿٤٤﴾

لیکن انہوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی جس پر انہیں ان کے دیکھتے دیکھتے (تیز وتند) کڑاکے(1) نے ہلاک کر دیا.

(1) یہ صَاعِقَةٌ (کڑاکا) آسمانی چیخ تھی اور اس کے ساتھ نیچے سے رَجْفَةٌ (زلزلہ) تھا جیساکہ سورۂ اعراف 78 میں ہے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَمَا ٱسۡتَطَـٰعُواْ مِن قِیَامࣲ وَمَا كَانُواْ مُنتَصِرِینَ ﴿٤٥﴾

پس نہ تو وه کھڑے ہو سکے(1) اور نہ بدلہ لے سکے.(2)

(1) چہ جائیکہ وہ بھاگ سکیں۔ (2) یعنی اللہ کے عذاب سے اپنےآپ کو نہیں بچا سکے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

وَقَوۡمَ نُوحࣲ مِّن قَبۡلُۖ إِنَّهُمۡ كَانُواْ قَوۡمࣰا فَـٰسِقِینَ ﴿٤٦﴾

اور نوح (علیہ السلام) کی قوم کا بھی اس سے پہلے (یہی حال ہو چکا تھا) وه بھی بڑے نافرمان لوگ تھے.(1)

(1) قوم نوح، عاد، فرعون اور ثمود وغیرہ سے پہلے گزری ہے۔ اس نے بھی اطاعت الٰہی کے بجائے اس کی بغاوت کا راستہ اختیار کیا تھا۔ بالآخر طوفان میں ڈبو دیا گیا۔


Arabic explanations of the Qur’an:

وَٱلسَّمَاۤءَ بَنَیۡنَـٰهَا بِأَیۡیْدࣲ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ ﴿٤٧﴾

آسمان کو ہم نے (اپنے) ہاتھوں سے بنایا ہے(1) اور یقیناً ہم کشادگی کرنے والے ہیں.(2)

(1) السَّمَاءَ منصوب ہے۔ بَنَيْنَا محذوف کی وجہ سے بَنَيْنَا السَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا۔ (2) یعنی آسمان پہلے ہی بہت وسیع ہے لیکن ہم اس کو اس سے بھی زیادہ وسیع کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ یا آسمان سےبارش برساکر روزی کشادہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں یا مُوسِعٌ کو وُسْعٌ سے قرار دیاجائے۔ (طاقت وقدرت رکھنے والے) تومطلب ہوگا کہ ہمارے اندر اس جیسے اور آسمان بنانے کی بھی طاقت موجودہے۔ ہم آسمان و زمین بناکر تھک نہیں گئے ہیں بلکہ ہماری قدرت و طاقت کی کوئی انتہا ہی نہیں ہے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

وَٱلۡأَرۡضَ فَرَشۡنَـٰهَا فَنِعۡمَ ٱلۡمَـٰهِدُونَ ﴿٤٨﴾

اور زمین کو ہم نے فرش بنا دیاہے(1) پس ہم بہت ہی اچھے بچھانے والے ہیں.

(1) یعنی فرش کی طرح اسےبچھا دیا۔


Arabic explanations of the Qur’an:

وَمِن كُلِّ شَیۡءٍ خَلَقۡنَا زَوۡجَیۡنِ لَعَلَّكُمۡ تَذَكَّرُونَ ﴿٤٩﴾

اور ہر چیز کو ہم نے جوڑا جوڑا پیداکیا(1) ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو.(2)

(1) یعنی ہر چیز کو جوڑا جوڑا، نر اور مادہ یا اس کی مقابل اور ضد کو بھی پیدا کیا ہے۔ جیسے روشنی اور اندھیرا، خشکی اور تری، چاند اور سورج، میٹھا اور کڑوا، رات اور دن، خیر اور شر، زندگی اور موت، ایمان اور کفر، شقاوت اور سعادت، جنت اور دوزخ، جن وانس وغیرہ، حتیٰ کہ حیوانات (جاندار) کے مقابل، جمادات (بے جان) اس لیے ضروری ہے کہ دنیاکا بھی جوڑا ہو یعنی آخرت، دنیا کے بالمقابل دوسری زندگی۔ (2) یہ جان لو کہ ان سب کا پیدا کرنے والا صرف ایک اللہ ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَفِرُّوۤاْ إِلَى ٱللَّهِۖ إِنِّی لَكُم مِّنۡهُ نَذِیرࣱ مُّبِینࣱ ﴿٥٠﴾

پس تم اللہ کی طرف دوڑ بھاگ (یعنی رجوع) کرو(1) ، یقیناً میں تمہیں اس کی طرف سے صاف صاف تنبیہ کرنے واﻻ ہوں.

(1) یعنی کفر و معصیت سے توبہ کر کے فوراً بارگاہ الٰہی میں جھک جاؤ، اس میں تاخیر مت کرو۔


Arabic explanations of the Qur’an:

وَلَا تَجۡعَلُواْ مَعَ ٱللَّهِ إِلَـٰهًا ءَاخَرَۖ إِنِّی لَكُم مِّنۡهُ نَذِیرࣱ مُّبِینࣱ ﴿٥١﴾

اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ ٹھراؤ۔ بیشک میں تمہیں اس کی طرف سے کھلا ڈرانے واﻻ ہوں.(1)

(1) یعنی میں تمہیں کھول کھول کر ڈرا رہا اور تمہاری خیرخواہی کر رہا ہوں کہ صرف ایک اللہ کی طرف رجوع کرو،اسی پر اعتماد اور بھروسہ کرو اور صرف اسی ایک کی عبادت کرو، اس کےساتھ دوسرے معبودوں کو شریک مت کرو۔ ایسا کرو گے تو یاد رکھنا، جنت کی نعمتوں سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جاؤ گے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

كَذَ ٰ⁠لِكَ مَاۤ أَتَى ٱلَّذِینَ مِن قَبۡلِهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا قَالُواْ سَاحِرٌ أَوۡ مَجۡنُونٌ ﴿٥٢﴾

اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں ان کے پاس جو بھی رسول آیا انہوں نے کہہ دیا کہ یا تو یہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے.


Arabic explanations of the Qur’an:

أَتَوَاصَوۡاْ بِهِۦۚ بَلۡ هُمۡ قَوۡمࣱ طَاغُونَ ﴿٥٣﴾

کیایہ اس بات کی ایک دوسرے کو وصیت کرتے گئے ہیں.(1)

(1) یعنی ہر بعد میں آنے والی قوم نے اس طرح رسولوں کی تکذیب کی اور انہیں جادوگر اور دیوانہ قرار دیا، جیسے پچھلی قومیں بعد میں آنے والی قوموں کے لیے وصیت کر کے جاتی رہی ہیں۔ یکے بعد دیگرے ہر قوم نے یہی تکذیب کا راستہ اختیار کیا۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَتَوَلَّ عَنۡهُمۡ فَمَاۤ أَنتَ بِمَلُومࣲ ﴿٥٤﴾

(نہیں) بلکہ یہ سب کے سب سرکش ہیں(1) ۔ تو آپ ان سے منھ پھیر لیں آپ پر کوئی ملامت نہیں.

(1) یعنی ایک دوسرے کو وصیت تو نہیں کی بلکہ ہر قوم ہی اپنی اپنی جگہ سرکش ہے، اس لیے ان سب کے دل بھی متشابہ ہیں اور ان کے طور اطوار بھی ملتے جلتے۔ اس لیے متاخرین نے بھی وہی کچھ کہا اور کیا جو متقدمین نے کہا اور کیا۔


Arabic explanations of the Qur’an:

وَذَكِّرۡ فَإِنَّ ٱلذِّكۡرَىٰ تَنفَعُ ٱلۡمُؤۡمِنِینَ ﴿٥٥﴾

اور نصیحت کرتے رہیں یقیناً یہ نصیحت ایمان والوں کو نفع دے گی.(1)

(1) اس لیے کہ نصیحت سے فائدہ انہیں کو پہنچتا ہے۔ یا مطلب ہے کہ آپ نصیحت کرتے رہیں، اس نصیحت سے وہ لوگ یقیناً فائدہ اٹھائیں گے جن کی بابت اللہ کے علم میں ہے کہ وہ ایمان لائیں گے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

وَمَا خَلَقۡتُ ٱلۡجِنَّ وَٱلۡإِنسَ إِلَّا لِیَعۡبُدُونِ ﴿٥٦﴾

میں نے جنات اورانسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وه صرف میری عبادت کریں.(1)

(1) اس میں اللہ تعالیٰ کے اس ارادۂ شرعیہ تکلیفیہ کا اظہار ہے جو اس کو محبوب ومطلوب ہے کہ تمام انس وجن صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اور اطاعت بھی اسی ایک کی کریں۔ اگر اس کا تعلق ارادۂ تکوینی سے ہوتا، پھر تو کوئی انس وجن اللہ کی عبادت واطاعت سے انحراف کی طاقت ہی نہ رکھتا۔ یعنی اس میں انسانوں اور جنوں کو اس مقصد زندگی کی یاد دہانی کرائی گئی ہے، جسے اگر انہوں نے فراموش کیے رکھا تو آخرت میں سخت بازپرس ہوگی اور وہ اس امتحان میں ناکام قرار پائیں گے جس میں اللہ نے ان کو ارادہ واختیار کی آزادی دے کر ڈالا ہے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

مَاۤ أُرِیدُ مِنۡهُم مِّن رِّزۡقࣲ وَمَاۤ أُرِیدُ أَن یُطۡعِمُونِ ﴿٥٧﴾

نہ میں ان سے روزی چاہتا ہوں نہ میری یہ چاہت ہے کہ یہ مجھے کھلائیں.(1)

(1) یعنی میری عبادت واطاعت سے میرا مقصود یہ نہیں ہے کہ یہ مجھے کما کر کھلائیں، جیساکہ دوسرے آقاؤں کا مقصود ہوتاہے، بلکہ رزق کےسارے خزانے تو خود میرے ہی پاس ہیں میری عبادت واطاعت سے تو خود ان ہی کو فائدہ ہو گا کہ ان کی آخرت سنور جائے گی نہ کہ مجھے کوئی فائدہ ہو گا۔


Arabic explanations of the Qur’an:

إِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلرَّزَّاقُ ذُو ٱلۡقُوَّةِ ٱلۡمَتِینُ ﴿٥٨﴾

اللہ تعالیٰ تو خود ہی سب کا روزی رساں توانائی واﻻ اور زور آور ہے.


Arabic explanations of the Qur’an:

فَإِنَّ لِلَّذِینَ ظَلَمُواْ ذَنُوبࣰا مِّثۡلَ ذَنُوبِ أَصۡحَـٰبِهِمۡ فَلَا یَسۡتَعۡجِلُونِ ﴿٥٩﴾

پس جن لوگوں نے ﻇلم کیا ہے انہیں بھی ان کے ساتھیوں کے حصہ کے مثل حصہ ملے گا(1) ، لہٰذا وه مجھ سے جلدی طلب نہ کریں.(2)

(1) ذَنُوبٌ کے معنی بھرے ڈول کےہیں۔ کنویں سے ڈول میں پانی نکالا کر تقسیم کیا جاتا ہے اس اعتبار سے یہاں ڈول کو حصے کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ مطلب ہے کہ ظالموں کو عذاب سے حصہ پہنچے گا، جس طرح اس سے پہلے کفر وشرک کا ارتکاب کرنے والوں کو ان کے عذاب کا حصہ ملا تھا۔ (2) لیکن یہ حصۂ عذاب انہیں کب پہنچے گا، یہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، اس لیے طلب عذاب میں جلدی نہ کریں۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَوَیۡلࣱ لِّلَّذِینَ كَفَرُواْ مِن یَوۡمِهِمُ ٱلَّذِی یُوعَدُونَ ﴿٦٠﴾

پس خرابی ہے منکروں کو ان کے اس دن کی جس کا وعده دیئے جاتے ہیں.


Arabic explanations of the Qur’an: