سورة رحمن

استمع

Urdu اردو

سورة رحمن - عدد الآيات 78

ٱلرَّحۡمَـٰنُ ﴿١﴾

رحمٰن نے.


Arabic explanations of the Qur’an:

عَلَّمَ ٱلۡقُرۡءَانَ ﴿٢﴾

قرآن سکھایا.(1)

(1) کہتےہیں کہ یہ اہل مکہ کےجواب میں ہے جوکہتے تھے کہ یہ قرآن محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کوئی انسان سکھاتا ہے بعض کہتےہیں کہ ان کے اس قول کے جواب میں ہے کہ رحمٰن کیا ہے؟ قرآن سکھانے کا مطلب ہے، اسے آسان کر دیا، یااللہ نے اپنے پیغمبر کوسکھایا اور پیغمبر نے امت کو سکھایا۔ اس سورت میں اللہ نےاپنی بہت سی نعمتیں گنوائی ہیں۔ چونکہ تعلیم قرآن ان میں قدرومنزلت اور اہمیت وافادیت کے لحاظ سےسب سے نمایاں ہے، اس لیے پہلے اسی نعمت کا ذکر فرمایا ہے۔ (فتح القدیر)۔


Arabic explanations of the Qur’an:

خَلَقَ ٱلۡإِنسَـٰنَ ﴿٣﴾

اسی نے انسان کو پیدا کیا.(1)

(1) یعنی یہ بندر وغیرہ جانوروں سے ترقی کرتےکرتے انسان نہیں بن گئے ہیں۔ جیسا کہ دارون کا فلسفہ ارتقا ہے۔ بلکہ انسان کواسی شکل وصورت میں اللہ نے پیدا فرمایا ہے۔ جو جانوروں سے الگ ایک مستقل مخلوق ہے۔ انسان کا لفظ بطور جنس کے ہے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

عَلَّمَهُ ٱلۡبَیَانَ ﴿٤﴾

اور اسے بولنا سکھایا.(1)

(1) اس بیان سےمراد ہر شخص کی اپنی مادری بولی ہے جو بغیرسیکھے ازخود ہر شخص بول لیتا اور اس میں اپنے مافی الضمیر کا اظہار کر لیتاہے، حتیٰ کہ وہ چھوٹا بچہ بھی بولتا ہے، جس کو کسی بات کا علم اور شعور نہیں ہوتا۔ یہ اس تعلیم الٰہی کا نتیجہ ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

ٱلشَّمۡسُ وَٱلۡقَمَرُ بِحُسۡبَانࣲ ﴿٥﴾

آفتاب اور ماہتاب (مقرره) حساب سے ہیں.(1)

(1) یعنی اللہ کے ٹھہرائے ہوئے حساب سے اپنی اپنی منزلوں پر رواں دواں رہتےہیں، ان سے تجاوز نہیں کرتے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

وَٱلنَّجۡمُ وَٱلشَّجَرُ یَسۡجُدَانِ ﴿٦﴾

اور ستارے اور درخت دونوں سجده کرتے ہیں.(1)

(1) جیسے دوسرےمقام پر فرمایا أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَسْجُدُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ الآية (الحج: 18)۔


Arabic explanations of the Qur’an:

وَٱلسَّمَاۤءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ ٱلۡمِیزَانَ ﴿٧﴾

اسی نے آسمان کو بلند کیا اور اسی نے ترازو رکھی.(1)

(1) یعنی زمین میں انصاف رکھا، جس کا اس نے لوگوں کو حکم دیا، جیسے فرمایا: لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (الحديد: 25)۔


Arabic explanations of the Qur’an:

أَلَّا تَطۡغَوۡاْ فِی ٱلۡمِیزَانِ ﴿٨﴾

تاکہ تم تولنے میں تجاوز نہ کرو.(1)

- یعنی انصاف سے تجاوز نہ کرو۔


Arabic explanations of the Qur’an:

وَأَقِیمُواْ ٱلۡوَزۡنَ بِٱلۡقِسۡطِ وَلَا تُخۡسِرُواْ ٱلۡمِیزَانَ ﴿٩﴾

انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول میں کم نہ دو.


Arabic explanations of the Qur’an:

وَٱلۡأَرۡضَ وَضَعَهَا لِلۡأَنَامِ ﴿١٠﴾

اور اسی نے مخلوق کے لیے زمین بچھا دی.


Arabic explanations of the Qur’an:

فِیهَا فَـٰكِهَةࣱ وَٱلنَّخۡلُ ذَاتُ ٱلۡأَكۡمَامِ ﴿١١﴾

جس میں میوے ہیں اور خوشے والے کھجور کے درخت ہیں.(1)

(1) أَكْمَامٌ، كِمٌّ کی جمع ہے وِعَاءُ التَّمْرِ، کھجور پر چڑھا ہوا غلاف۔


Arabic explanations of the Qur’an:

وَٱلۡحَبُّ ذُو ٱلۡعَصۡفِ وَٱلرَّیۡحَانُ ﴿١٢﴾

اور بھس واﻻ اناج ہے(1) ۔ اور خوشبودار پھول ہیں.

(1) حَبٌّ سےمراد ہر وہ خوراک ہے جو انسان اور جانور کھاتے ہیں خشک ہو کراس کا پودا بھس بن جاتا ہے تو جانوروں کے کام آتا ہے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَبِأَیِّ ءَالَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿١٣﴾

پس (اے انسانو اور جنو!) تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟(1)

(1) یہ انسانوں اور جنوں دونوں سے خطاب ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی نعتمیں گنوا کر ان سے پوچھ رہا ہے۔ یہ تکرار اس شخص کی طرح ہے جو کسی پرمسلسل احسان کرے لیکن وہ اس کے احسان کا منکر ہو، جیسے کہے، میں نے تیرا فلاں کام کیا، کیا تو انکار کرتا ہے؟ فلاں چیز تجھے دی، کیا تجھے یاد نہیں؟ تجھ پر فلاں احسان کیا، کیا تجھے ہمارا ذرا خیال نہیں؟ (فتح القدیر)۔


Arabic explanations of the Qur’an:

خَلَقَ ٱلۡإِنسَـٰنَ مِن صَلۡصَـٰلࣲ كَٱلۡفَخَّارِ ﴿١٤﴾

اس نےانسان کو بجنے والی مٹی سے پیدا کیا جو ٹھیکری کی طرح تھی.(1)

(1) صَلْصَالٍ خشک مٹی، جس میں آ واز ہو۔ فَخَّارٌ آگ میں پکی ہوئی مٹی، جسے ٹھیکری کہتےہیں۔ اس انسان سےمراد حضرت آدم (عليه السلام) ہیں، جن کا پہلے مٹی سے پتلا بنایا گیا اور پھر اس میں اللہ نے روح پھونکی۔ پھر حضرت آدم (عليه السلام) کی بائیں پسلی سے حوا کو پیدا فرمایا، اور پھر ان دونوں سے نسل انسانی چلی۔


Arabic explanations of the Qur’an:

وَخَلَقَ ٱلۡجَاۤنَّ مِن مَّارِجࣲ مِّن نَّارࣲ ﴿١٥﴾

اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا.(1)

(1) اس سے مراد سب سے پہلا جن ہے جو ابوالجن ہے، یا جن بطور جنس کے ہے۔ جیساکہ ترجمہ جنس کے اعتبار سے ہی کیا گیا ہے۔ مَارِجٍ آگ سے بلند ہونے والے شعلے کو کہتےہیں۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَبِأَیِّ ءَالَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿١٦﴾

پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟(1)

(1) یعنی تمہاری یہ پیدائش بھی اور پھر تم سے مزید نسلوں کی تخلیق وافزائش، یہ اللہ کی نعمتوں میں سے ہے۔ کیا تم اس نعمت کا انکار کرو گے؟


Arabic explanations of the Qur’an:

رَبُّ ٱلۡمَشۡرِقَیۡنِ وَرَبُّ ٱلۡمَغۡرِبَیۡنِ ﴿١٧﴾

وه رب ہے دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا(1)

(1) ایک گرمی کا مشرق اورایک سردی کا مشرق، اسی طرح مغرب ہے۔ اس لیے دونوں کو تثنیہ ذکر کیاہے، موسموں کے اعتبار سے مشرق و مغرب کامختلف ہونا اس میں بھی انس و جن کی بہت سی مصلحتیں ہیں، اس لیے اسے بھی نعمت قرار دیا گیا ہے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَبِأَیِّ ءَالَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿١٨﴾

تو (اے جنو اورانسانو!) تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟


Arabic explanations of the Qur’an:

مَرَجَ ٱلۡبَحۡرَیۡنِ یَلۡتَقِیَانِ ﴿١٩﴾

اس نے دو دریا جاری کر دیے جو ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں.


Arabic explanations of the Qur’an:

بَیۡنَهُمَا بَرۡزَخࣱ لَّا یَبۡغِیَانِ ﴿٢٠﴾

ان دونوں میں ایک آڑ ہے کہ اس سے بڑھ نہیں سکتے.(1)

(1) مَرَجَ بمعنی أَرْسَل َجاری کر دیئے۔ اس کی تفصیل سورۃ الفرقان،آیت 53 میں گزر چکی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دو دریاوں سے مراد بعض کے نزدیک ان کے الگ الگ وجود ہیں۔ جیسےمیٹھے پانی کے دریا ہیں، جن سے کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں اور انسان ان کا پانی اپنی دیگر ضروریات میں بھی استعمال کرتا ہے۔ دوسری قسم سمندروں کاﭘانی ہے۔ جو کھارا ہے،جس کے کچھ اور فوائد ہیں۔ یہ دونوں آپس میں نہیں ملتے۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ کھارے سمندروں میں ہی میٹھے پانی کی لہریں چلتی ہیں اوریہ دونوں لہریں آپس میں نہیں ملتیں، بلکہ ایک دوسرے سے جدا اور ممتاز ہی رہتی ہیں۔ اس کی ایک صورت تویہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کھارے سمندروں میں ہی کئی مقامات پر میٹھے پانی کی لہریں بھی جاری کی ہوئی ہیں اور وہ کھارے پانی سے الگ ہی رہتی ہیں۔ دوسری صورت یہ بھی ہے کہ اوپرکھارا پانی ہو اور اس کی تہ میں نیچے چشمہ آب شیریں۔ جیسا کہ واقعتاً بعض مقامات پر ایسا ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ جن مقامات پر میٹھے پانی کے دریا کا پانی سمندر میں جا گرتا ہے، وہاں کئی لوگوں کا مشاہدہ ہے کہ دونوں پانی میلوں دور تک اس طرح ساتھ ساتھ چلتے ہیں کہ ایک طرف میٹھا دریائی پانی اور دوسری طرف وسیع و عریض سمندر کا کھارا پانی، ان کے درمیان اگرچہ کوئی آڑ نہیں۔ لیکن یہ باہم نہیں ملتے۔ دونوں کے درمیان یہ وہ برزخ (آڑ) ہے جو اللہ نے رکھ دی ہے، دونوں اس سے تجاوز نہیں کرتے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَبِأَیِّ ءَالَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿٢١﴾

پس اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟


Arabic explanations of the Qur’an:

یَخۡرُجُ مِنۡهُمَا ٱللُّؤۡلُؤُ وَٱلۡمَرۡجَانُ ﴿٢٢﴾

ان دونوں میں سے موتی اور مونگے برآمد ہوتے ہیں.(1)

(1) مَرْجَانٌ سے چھوٹے موتی یا پھر مونگے مراد ہیں۔ کہتے ہیں کہ آسمان سے بارش ہوتی ہے تو سیپیاں اپنے مونہہ کھول دیتی ہیں، جو قطرہ ان کے اندر پڑ جاتا ہے، وہ موتی بن جاتا ہےمشہور یہی ہے کہ موتی وغیرہ میٹھے پانی کے دریاؤں سے نہیں، بلکہ صرف آب شور یعنی سمندروں سے ہی نکلتے ہیں۔ لیکن قرآن نے تثنیہ کی ضمیر استعمال کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں سے ہی موتی نکلتے ہیں۔ چونکہ موتی کثرت کے ساتھ سمندروں سےہی نکلتے ہیں، اس لیےاس کی شہرت ہو گئی ہے۔ تاہم شیریں دریاؤں سے اس کی نفی ممکن نہیں بلکہ موجودہ دور کے تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ میٹھے دریا میں بھی موتی ہوتے ہیں۔ البتہ ان کے مسلسل جاری رہنے کی وجہ سے ان سے موتی نکالنا مشکل امر ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ مراد مجموعہ ہے، ان میں سے کسی ایک سے بھی موتی نکل جائیں توان پر تثنیہ کا اطلاق صحیح ہے۔ بعض نے کہا کہ شیریں دریا بھی عام طور پر سمندر میں ہی گرتے ہیں اور وہیں سے موتی نکالے جاتے ہیں، اس لیے گو منبع دریائے شور ہی ہوئے، لیکن دوسرے دریاؤں کا حصہ بھی اس میں شامل ہے لیکن موجودہ دورکے تجربات کے بعد ان تاویلات اور تکلﻔات کی ضرورت نہیں۔ وَاللهُ أَعْلَمُ۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَبِأَیِّ ءَالَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿٢٣﴾

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟(1)

(1) یہ جواہر اورموتی زیب وزینت اور حسن وجمال کا مظہر ہیں اور اہل شوق واہل ثروت انہیں اپنے ذوق جمال کی تسکین اور حسن ورعنائی میں اضافے ہی کے لیے استعمال کرتےہیں، اس لیے ان کا نعمت ہونا بھی واضح ہے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

وَلَهُ ٱلۡجَوَارِ ٱلۡمُنشَـَٔاتُ فِی ٱلۡبَحۡرِ كَٱلۡأَعۡلَـٰمِ ﴿٢٤﴾

اور اللہ ہی کی (ملکیت میں) ہیں وه جہاز جو سمندروں میں پہاڑ کی طرح بلند (چل پھر رہے) ہیں.(1)

(1) الْجَوَارِ، جَارِيَةٌ (چلنے والی) کی جمع اور محذوف موصوف (السُّفُنُ) کی صفت ہے۔ مُنْشَآتٌ کے معنی مرفوعات ہیں، یعنی بلند کی ہوئیں، مراد بادبان ہیں،جو بادبانی کشتیوں میں جھنڈوں کی طرح اونچے اور بلند بنائے جاتے ہیں۔ بعض نے اس کے معنی مصنوعات کے کیے ہیں یعنی اللہ کی بنائی ہوئی جو سمندر میں چلتی ہیں۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَبِأَیِّ ءَالَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿٢٥﴾

پس (اے انسانو اور جنو!) تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟(1)

- ان کے ذریعے سے بھی نقل وحمل کی جو آسانیاں ہیں، محتاج وضاحت نہیں، اس لیے یہ بھی اللہ کی عظیم نعمت ہے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

كُلُّ مَنۡ عَلَیۡهَا فَانࣲ ﴿٢٦﴾

زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے ہیں.


Arabic explanations of the Qur’an:

وَیَبۡقَىٰ وَجۡهُ رَبِّكَ ذُو ٱلۡجَلَـٰلِ وَٱلۡإِكۡرَامِ ﴿٢٧﴾

صرف تیرے رب کی ذات جو عظمت اور عزت والی ہے باقی ره جائے گی.


Arabic explanations of the Qur’an:

فَبِأَیِّ ءَالَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿٢٨﴾

پھرتم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟(1)

(1) فنائے دنیا کے بعد، جزا وسزا یعنی عدل کا اہتمام ہوگا، لہٰذا یہ بھی ایک نعمت عظمیٰ ہے جس پر شکرا الٰہی واجب ہے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

یَسۡـَٔلُهُۥ مَن فِی ٱلسَّمَـٰوَ ٰ⁠تِ وَٱلۡأَرۡضِۚ كُلَّ یَوۡمٍ هُوَ فِی شَأۡنࣲ ﴿٢٩﴾

سب آسمان وزمین والے اسی سے مانگتے ہیں(1) ۔ ہر روز وه ایک شان میں ہے.(2)

(1) یعنی سب اس کے محتاج اور اس کے در کے سوالی ہیں۔ (2) ہر روز کا مطلب، ہر وقت۔ شان کے معنی امر یا معاملہ ، یعنی ہر وقت وہ کسی نہ کسی کام میں مصروف ہے، کسی کو بیمار کر رہا ہے، کسی کو شفایاب، کسی کو تونگر بنا رہا ہے تو کسی تونگرکو فقیر۔ کسی کو گدا سے شاہ اور شاہ سے گدا، کسی کو بلندیوں پر فائز کرر ہا ہے، کسی کو پستی میں گرا رہا ہے، کسی کو ہست سے نیست اور نیست کو ہست کررہا ہے وغیرہ۔ الغرض کائنات میں یہ سارے تصرف اسی کے امر ومشیت سےہو رہے ہیں اور شب وروز کا کوئی لمحہ ایسا نہیں جو اس کی کارگزاری سے خالی ہو۔ هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ، لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَبِأَیِّ ءَالَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿٣٠﴾

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟(1)

(1) اوراتنی بڑی ہستی کاﮨر وقت بندوں کے امور ومعاملات کی تدبیر میں لگے رہنا، کتنی بڑی نعمت ہے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

سَنَفۡرُغُ لَكُمۡ أَیُّهَ ٱلثَّقَلَانِ ﴿٣١﴾

(جنوں اور انسانوں کے گروہو!) عنقریب ہم تمہاری طرف پوری طرح متوجہ ہو جائیں گے.(1)

(1) اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ کو فراغت نہیں ہے بلکہ یہ محاورۃً بولا گیا ہے۔ جس کا مقصد وعید وتہدید ہے۔ ثَقَلانِ (جن وانس کو) اس لیے کہا گیا ہے کہ ان کو تکالیف شرعیہ کا پابندکیا گیا ہے، اس پابندی یا بوجھ سے دوسری مخلوق مستثنیٰ ہے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَبِأَیِّ ءَالَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿٣٢﴾

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤگے؟


Arabic explanations of the Qur’an:

یَـٰمَعۡشَرَ ٱلۡجِنِّ وَٱلۡإِنسِ إِنِ ٱسۡتَطَعۡتُمۡ أَن تَنفُذُواْ مِنۡ أَقۡطَارِ ٱلسَّمَـٰوَ ٰ⁠تِ وَٱلۡأَرۡضِ فَٱنفُذُواْۚ لَا تَنفُذُونَ إِلَّا بِسُلۡطَـٰنࣲ ﴿٣٣﴾

اے گروه جنات و انسان! اگر تم میں آسمانوں اور زمین کے کناروں سے باہر نکل جانے کی طاقت ہے تو نکل بھاگو(1) ! بغیر غلبہ اور طاقت کے تم نہیں نکل سکتے.(2)

(1) یہ تہدید بھی نعمت ہے کہ اس سے بدکار، بدیوں کے ارتکاب سے باز آجائے اورمحسن زیادہ نیکیاں کمائے۔ (2) یعنی اللہ کی تقدیر اور قضا سے تم بھاگ کر کہیں جا سکتے ہو تو چلے جاؤ، لیکن یہ طاقت کس میں ہے؟ اور بھاگ کر آخر کہاں جائے گا؟ کون سی جگہ ایسی ہے جو اللہ کے اختیارات سے باہر ہو۔ یہ بھی تہدید ہے جو مذکورہ تہدید کی طرح نعمت ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ میدان محشر میں کہا جائے گا، جب کہ فرشتے ہر طرف سے لوگوں کو گھیر رکھے ہوں گے۔ دونوں ہی مفہوم اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَبِأَیِّ ءَالَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿٣٤﴾

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟


Arabic explanations of the Qur’an:

یُرۡسَلُ عَلَیۡكُمَا شُوَاظࣱ مِّن نَّارࣲ وَنُحَاسࣱ فَلَا تَنتَصِرَانِ ﴿٣٥﴾

تم پر آگ کے شعلے اور دھواں چھوڑا جائے گا(1) پھر تم مقابلہ نہ کر سکو گے.(2)

(1) مطلب یہ ہے کہ اگر تم قیامت والے دن کہیں بھاگ کر گئے بھی، تو فرشتے آگ کے شعلے اور دھواں تم پر چھوڑ کر یا پگھلا ہوا تانبہ تمہارے سروں پر ڈال کر تمہیں واپس لے آئیں گے۔ نُحَاسٌ کے دوسرے معنی پگھلے ہوئے تانبے کے کیے گئے ہیں۔ (2) یعنی اللہ کے عذاب کو ٹالنے کی تم قدرت نہیں رکھو گے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَبِأَیِّ ءَالَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿٣٦﴾

پھر اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟


Arabic explanations of the Qur’an:

فَإِذَا ٱنشَقَّتِ ٱلسَّمَاۤءُ فَكَانَتۡ وَرۡدَةࣰ كَٱلدِّهَانِ ﴿٣٧﴾

پس جب کہ آسمان پھٹ کر سرخ ہو جائے جیسے کہ سرخ چمڑه.(1)

(1) قیامت والے دن آسمان پھٹ پڑے گا، فرشتے زمین پر اترآئیں گے، اس دن یہ نار جہنم کی شدت حرارت سے پگھل کر سرخ نری کے چمڑے کر طرح ہو جائے گا۔ دِهَانٌ ،سرخ چمڑہ۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَبِأَیِّ ءَالَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿٣٨﴾

پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟


Arabic explanations of the Qur’an:

فَیَوۡمَىِٕذࣲ لَّا یُسۡـَٔلُ عَن ذَنۢبِهِۦۤ إِنسࣱ وَلَا جَاۤنࣱّ ﴿٣٩﴾

اس دن کسی انسان اورکسی جن سے اس کے گناہوں کی پرسش نہ کی جائے گی.(1)

(1) یعنی جس وقت وہ قبروں سےباہر نکلیں گے۔ ورنہ بعد میں موقف حساب میں ان سے باز پرس کی جائے گی۔ بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ گناہوں کی بابت نہیں پوچھا جائے گا، کیونکہ ان کا تو پورا ریکارڈ فرشتوں کے پاس بھی ہوگا اور اللہ کے علم میں بھی۔ البتہ پوچھا جائے گا کہ تم نے یہ کیوں کیے؟ یا یہ مطلب ہے، ان سے نہیں پوچھا جائے گا بلکہ انسانی اعضا خودبول کر ہر بات بتلائیں گے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَبِأَیِّ ءَالَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿٤٠﴾

پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟


Arabic explanations of the Qur’an:

یُعۡرَفُ ٱلۡمُجۡرِمُونَ بِسِیمَـٰهُمۡ فَیُؤۡخَذُ بِٱلنَّوَ ٰ⁠صِی وَٱلۡأَقۡدَامِ ﴿٤١﴾

گناه گار صرف حلیہ ہی سے پہچان لیے جائیں گے(1) اور ان کی پیشانیوں کے بال اور قدم پکڑ لیے جائیں گے.(2)

(1) یعنی جس طرح اہل ایمان کی علامت ہوگی کہ ان کے اعضائے وضو چمکتے ہوں گے۔ اسی طرح گناہ گاروں کےچہرے سیاہ، آنکھیں نیلگوں اور وہ دہشت زدہ ہوں گے۔ (2) فرشتے ان کی پیشانیاں اور ان کے قدموں کے ساتھ ملا کر پکڑیں گے اور جہنم میں ڈال دیں گے، یا کبھی پیشانیوں سے اور کبھی قدموں سے انہیں پکڑیں گے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَبِأَیِّ ءَالَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿٤٢﴾

پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟


Arabic explanations of the Qur’an:

هَـٰذِهِۦ جَهَنَّمُ ٱلَّتِی یُكَذِّبُ بِهَا ٱلۡمُجۡرِمُونَ ﴿٤٣﴾

یہ ہے وه جہنم جسے مجرم جھوٹا جانتے تھے.


Arabic explanations of the Qur’an:

یَطُوفُونَ بَیۡنَهَا وَبَیۡنَ حَمِیمٍ ءَانࣲ ﴿٤٤﴾

اس کے اور کھولتے ہوئے گرم پانی کے درمیان چکر کھائیں گے.(1)

(1) یعنی کبھی انہی حجیم کا عذاب دیا جائے گا اور کبھی مَاءٌ حَمِيمٌ پینے کا عذاب۔ آنٍ گرم۔ یعنی سخت کھولتا ہوا پانی، جو ان کی انتڑیوں کو کاٹ دے گا۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهَا۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَبِأَیِّ ءَالَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿٤٥﴾

پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟


Arabic explanations of the Qur’an:

وَلِمَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِۦ جَنَّتَانِ ﴿٤٦﴾

اور اس شخص کے لیے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا دو جنتیں ہیں.(1)

(1) جیسے حدیث میں آتا ہے۔ ”دو باغ چاندی کے ہیں، جن میں برتن اورجو کچھ ان میں ہے، سب چاندی کے ہوں گے۔ دو باغ سونے کے ہیں اور ان کے برتن اور جو کچھ ان میں ہے، سب سونے کے ہی ہوں گے“۔ (صحيح بخاري، تفسير سور الرحمن) بعض آثار میں ہے کہ سونے کے باغ خواص مومنین مُقَرَّبِينَ اورچاندی کے باغ عام مومنین أَصْحَابُ الْيَمِينِ کے لیے ہوں گے۔ (ابن کثیر)۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَبِأَیِّ ءَالَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿٤٧﴾

پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟


Arabic explanations of the Qur’an:

ذَوَاتَاۤ أَفۡنَانࣲ ﴿٤٨﴾

(دونوں جنتیں) بہت سی ٹہنیوں اور شاخوں والی ہیں.(1)

(1) یہ اشارہ ہے اس طرف کہ اس میں سایہ گنجان اورگہرا ہوگا، نیز پھولوں کی کثرت ہوگی، کیونکہ کہتےہیں ہر شاخ اور ٹہنی پھلوں سے لدی ہوگی۔ (ابن کثیر)۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَبِأَیِّ ءَالَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿٤٩﴾

پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟


Arabic explanations of the Qur’an:

فِیهِمَا عَیۡنَانِ تَجۡرِیَانِ ﴿٥٠﴾

ان دونوں (جنتوں) میں دو بہتے ہوئے چشمے ہیں.(1)

(1) ایک کا نام تَسْنِيمٌ اور دوسرے کا سَلْسَبِيلٌ ہے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَبِأَیِّ ءَالَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿٥١﴾

پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟


Arabic explanations of the Qur’an:

فِیهِمَا مِن كُلِّ فَـٰكِهَةࣲ زَوۡجَانِ ﴿٥٢﴾

ان دونوں جنتوں میں ہر قسم کے میوؤں کی دو قسمیں ہوگی.(1)

(1) یعنی ذائقے اور لذت کے اعتبار سے ہر پھل دو قسم کا ہو گا، یہ مزید فضل خاص کی ایک صورت ہے۔ بعض نے کہا کہ ایک قسم خشک میوے کی اور دوسری تازہ میوے کی ہو گی۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَبِأَیِّ ءَالَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿٥٣﴾

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟


Arabic explanations of the Qur’an:

مُتَّكِـِٔینَ عَلَىٰ فُرُشِۭ بَطَاۤىِٕنُهَا مِنۡ إِسۡتَبۡرَقࣲۚ وَجَنَى ٱلۡجَنَّتَیۡنِ دَانࣲ ﴿٥٤﴾

جنتی ایسے فرشوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے جن کے استر دبیز ریشم کے ہوں گے(1) ، اور ان دونوں جنتوں کے میوے بالکل قریب ہوں گے.(2)

(1) ابری یعنی اوپر کا کپڑاہمیشہ استر سےبہتر اور خوب صورت ہوتا ہے،یہاں صرف استر کا بیان ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اوپر (ابری) کا کپڑا اس سے کہیں زیادہ عمدہ ہو گا۔ (2) اتنے قریب ہوں گے کہ بیٹھے بیٹھے بلکہ لیٹے لیٹے بھی توڑ سکیں گے۔ قُطُوفُهَا دَانِيَةٌ (الحاقة: 23)۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَبِأَیِّ ءَالَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿٥٥﴾

پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟


Arabic explanations of the Qur’an:

فِیهِنَّ قَـٰصِرَ ٰ⁠تُ ٱلطَّرۡفِ لَمۡ یَطۡمِثۡهُنَّ إِنسࣱ قَبۡلَهُمۡ وَلَا جَاۤنࣱّ ﴿٥٦﴾

وہاں (شرمیلی) نیچی نگاه والی حوریں ہیں(1) جنہیں ان سے پہلے کسی جن وانس نے ہاتھ نہیں لگایا.(2)

(1) جن کی نگاہیں اپنے خاوندوں کے علاوہ کسی پر نہیں پڑیں گی اور ان کو اپنے خاوند ہی سب سے زیادہ حسین اور اچھے معلوم ہوں گے۔ (2) یعنی باکرہ اور نئی نویلی ہوں گی۔ اس سے قبل وہ کسی کے نکاح میں نہیں رہی ہوں گے۔ یہ آیت اور اس سے ماقبل کی بعض آیات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جو جن مومن ہوں گے، وہ بھی مومن انسانوں کی طرح جنت میں جائیں گے اور ان کے لیے بھی وہی کچھ ہوگا جو دیگر اہل ایمان کےلیے ہوگا۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَبِأَیِّ ءَالَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿٥٧﴾

پس اپنے پالنے والے کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟


Arabic explanations of the Qur’an:

كَأَنَّهُنَّ ٱلۡیَاقُوتُ وَٱلۡمَرۡجَانُ ﴿٥٨﴾

وه حوریں مثل یاقوت اور مونگے کے ہوں گی.(1)

(1) یعنی صفائی میں یا قوت اور سفیدی وسرخی میں موتی یا مونگے کی طرح ہوں گی۔ جس طرح صحیح احادیث میں بھی ان کے حسن وجمال کو ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے ”يُرَى مُخُّ سُوقِهِنَّ مِنْ وَّرَاءِ الْعَظْمِ وَاللَّحْمِ“ (صحيح بخاري، كتاب بدء الخلق ، باب ما جاء في صفة الجنة، وصحيح مسلم ، كتاب الجنة وصفة نعيمها ، باب أول زمرة تدخل الجنة) ”ان کے حسن وجمال کی وجہ سے ان کی پنڈلی کا گودا گوشت اور ہڈی کے باہر سے نظر آئے گا“۔ ایک دوسری روایت میں فرمایا کہ ”جنتیوں کی بیویاں اتنی حسین وجمیل ہوں گی کہ اگر ان میں سے ایک عورت اہل ارض کی طرف جھانک لےتو آسمان وزمین کے درمیان کا سارا حصہ چمک اٹھے اور خوشبو سے بھرجائے، اور اس کے سر کا دوپٹہ اتنا قیمتی ہوگا کہ وہ دنیا وما فیہا سے بہتر ہے“۔ (صحيح بخاري، كتاب الجهاد باب الحور العين)۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَبِأَیِّ ءَالَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿٥٩﴾

پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟


Arabic explanations of the Qur’an:

هَلۡ جَزَاۤءُ ٱلۡإِحۡسَـٰنِ إِلَّا ٱلۡإِحۡسَـٰنُ ﴿٦٠﴾

احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے.(1)

(1) پہلے احسان سے مراد نیکی اوراطاعت اور اطاعت الٰہی اور دوسرے احسان سے اس کا صلہ، یعنی جنت اور اس کی نعمتیں ہیں۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَبِأَیِّ ءَالَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿٦١﴾

پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟


Arabic explanations of the Qur’an:

وَمِن دُونِهِمَا جَنَّتَانِ ﴿٦٢﴾

اور ان کے سوا دو جنتیں اور ہیں.(1)

(1) دُونِهِمَا سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ یہ دو باغ شان اور فضیلت میں پچھلے دوباغوں سے، جن کا ذکر آیت 46 میں گزرا، کم تر ہوں گے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَبِأَیِّ ءَالَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿٦٣﴾

پس تم اپنے پرورش کرنے والے کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟


Arabic explanations of the Qur’an:

مُدۡهَاۤمَّتَانِ ﴿٦٤﴾

جو دونوں گہری سبز سیاہی مائل ہیں.(1)

(1) کثرت سیرابی اور سبزے کی فراوانی کی وجہ سے وہ مائل بہ سیاہی ہوں گے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَبِأَیِّ ءَالَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿٦٥﴾

بتاؤ اب اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟


Arabic explanations of the Qur’an:

فِیهِمَا عَیۡنَانِ نَضَّاخَتَانِ ﴿٦٦﴾

ان میں دو (جوش سے) ابلنے والے چشمے ہیں.(1)

(1) یہ صفت تَجْرِيَانِ سے ہلکی ہے الْجَرْيُ أَقْوَى مِنَ النَّضْخ (ابن كثير)۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَبِأَیِّ ءَالَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿٦٧﴾

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟


Arabic explanations of the Qur’an:

فِیهِمَا فَـٰكِهَةࣱ وَنَخۡلࣱ وَرُمَّانࣱ ﴿٦٨﴾

ان دونوں میں میوے اور کھجور اور انار ہوں گے.(1)

(1) جب کہ پہلی دو جنتوں (باغوں) کی صفت میں بتلایا گیا ہے کہ ہر پھل دو قسم کا ہو گا۔ ظاہر ہے اس میں شرف و فضل کی جو زیادتی ہے، وہ دوسری بات میں نہیں ہے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَبِأَیِّ ءَالَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿٦٩﴾

کیا اب بھی رب کی کسی نعمت کی تکذیب تم کرو گے؟


Arabic explanations of the Qur’an:

فِیهِنَّ خَیۡرَ ٰ⁠تٌ حِسَانࣱ ﴿٧٠﴾

ان میں نیک سیرت خوبصورت عورتیں ہیں.(1)

(1) خَيْرَاتٌ سے مراد اخلاق وکردار کی خوبیاں ہیں اور حِسَانٌ کامطلب ہے کہ حسن وجمال میں یکتا۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَبِأَیِّ ءَالَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿٧١﴾

پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟


Arabic explanations of the Qur’an:

حُورࣱ مَّقۡصُورَ ٰ⁠تࣱ فِی ٱلۡخِیَامِ ﴿٧٢﴾

(گوری رنگت کی) حوریں جنتی خیموں میں رہنے والیاں ہیں.(1)

(1) حدیث میں نبی ﹲ نے فرمایا جنت میں موتیوں کے خیمے ہوں گے، ان کا عرض ساٹھ میل ہوگا، اس کےہر کونے میں جنتی کے اہل ہوں گے، جس کو دوسرے کونے والے نہیں دیکھ سکیں گے۔ مومن اس میں گھومے گا۔ (صحيح بخاري، تفسير سورة الرحمن وكتاب بدء ما جاء في صفة الجنة ، صحيح مسلم، كتاب الجنة ، باب في صفة خيام الجنة)۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَبِأَیِّ ءَالَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿٧٣﴾

پس (اے انسانو اور جنو!) تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟


Arabic explanations of the Qur’an:

لَمۡ یَطۡمِثۡهُنَّ إِنسࣱ قَبۡلَهُمۡ وَلَا جَاۤنࣱّ ﴿٧٤﴾

ان کو ہاتھ نہیں لگایا کسی انسان یا جن نے اس سے قبل.


Arabic explanations of the Qur’an:

فَبِأَیِّ ءَالَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿٧٥﴾

پس اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کے ساتھ تم تکذیب کرتے ہو؟


Arabic explanations of the Qur’an:

مُتَّكِـِٔینَ عَلَىٰ رَفۡرَفٍ خُضۡرࣲ وَعَبۡقَرِیٍّ حِسَانࣲ ﴿٧٦﴾

سبز مسندوں اور عمده فرشوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے.(1)

(1) رفرف مسند، غالیچہ یا اس قسم کاعمدہ فرش عَبْقَرِيٍّ ، ہر نفیس اور اعلیٰ چیز کو کہا جاتا ہے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے حضرت عمر (رضي الله عنه) کے لیے یہ لفظ استعمال فرمایا فَلَمْ أَرَ عَبْقَرِيًّا يَفْرِي فِرْيَة (البخاري ، كتاب المناقب، باب فضل عمر- وصحيح مسلم ، فضائل الصحابة ، باب من فضائل عمررضي الله عنه) ”میں نے کوئی عبقری ایسا نہیں دیکھا جو عمر کی طرح کام کرتا ہو“۔ مطلب یہ ہے کہ جنتی ایسے تختوں پر فروکش ہوں گے جس پر سبز رنگ کی مسندیں، غالیچے اور اعلیٰ قسم کے خوبصورت منقش فرش بچھے ہوں گے۔


Arabic explanations of the Qur’an:

فَبِأَیِّ ءَالَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿٧٧﴾

پس (اے جنو اور انسانو!) تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟(1)

(1) یہ آیت اس سورت میں 31 مرتبہ آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں اپنی اقسام وانواع کی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے اور ہر نعمت یا چند نعمتوں کے ذکر کے بعد یہ استفسار فرمایا ہے، حتیٰ کہ میدان محشر کی ہولناکیوں اور جہنم کے عذاب کے بعد بھی یہ استفسار فرمایاہے، جس کا مطلب ہے کہ امور آخرت کی یاد دہانی بھی نعمت عظیمہ ہے تاکہ بچنے والے اس سے بچنے کی سعی کر لیں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی، کہ جن بھی انسانوں کی طرح اللہ کی ایک مخلوق ہے بلکہ انسانوں کے بعدیہ دوسری مخلوق ہے جسے عقل وشعور سے نوازا گیا ہے اور اس کے بدلے میں ان سے صرف اس امر کا تقاضا کیا گیا ہے کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ مخلوقات میں یہی دو ہیں جو شرعی احکام وفرائض کے مکلف ہیں، اسی لیے انہیں ارادہ واختیار کی آزادی دی گئی ہے۔ تاکہ ان کی آزمائش ہو سکے، تیسرے نعمتوں کے بیان سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانا جائز ومستحب ہے۔ یہ زہد وتقویٰ کے خلاف ہے اور نہ تعلق مع اللہ میں مانع، جیساکہ بعض اہل تصوف باورکراتے ہیں۔ چوتھے، بار بار یہ سوال کہ تم اللہ کی کون کون سی نعمتوں کی تکذیب کرو گے؟ یہ توبیخ اور تہدید کے طور پر ہے، جس کا مقصد اس اللہ کی نافرمانی سے روکنا ہے، جس نے یہ ساری نعمتیں پیدا اور مہیا فرمائیں۔ اسی لیے نبی ﹲ نے اس کے جواب میں یہ پڑھنا پسند فرمایا ”لا بِشَيْءٍ مِنْ نِعَمِكَ رَبَّنَا نُكَذِّبُ فَلَكَ الْحَمْدُ“ اے ہمارے رب ہم تیری کسی بھی نعمت کی تکذیب نہیں کرتے، پس تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں (سنن الترمذي، والصحيحة للألباني) لیکن اندرون صلاۃ اس جواب کاﭘڑھنا مشروع نہیں۔


Arabic explanations of the Qur’an:

تَبَـٰرَكَ ٱسۡمُ رَبِّكَ ذِی ٱلۡجَلَـٰلِ وَٱلۡإِكۡرَامِ ﴿٧٨﴾

تیرے پروردگار کا نام بابرکت ہے(1) جو عزت وجلال واﻻ ہے.

(1) تَبَارَكَ، برکت سے ہے جس کے معنی دوام وثبات کے ہیں۔ مطلب ہے اس کا نام ہمیشہ رہنے والا ہے، یا اس کے پاس ہمیشہ خیر کے خزانے ہیں۔ بعض نے اس کے معنی بلندی اور علو شان کےکیے ہیں اور جب اس کا نام اتنا بابرکت یعنی خیر اور بلندی کا حامل ہے تو اس کی ذات کتنی برکت اور عظمت و رفعت والی ہو گی۔


Arabic explanations of the Qur’an: