اور جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں.(1)
(1) یعنی لینے اور دینے کے الگ الگ پیمانے رکھنا اور اس طرح ڈنڈی مار کر ناپ تول میں کمی کرنا، بہت بڑی اخلاقی بیماری ہے جس کا نتیجہ دین وآخرت میں تباہی ہے۔ ایک حدیث میں ہے، جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے، تو اس پر قحط سالی، سخت محنت اور حکمرانوں کا ظلم مسلط کر دیا جاتا ہے۔ ( ابن ماجه ، نمبر 4019 ذكره الألباني في الصحيحة نمبر 106 من عدة طرق وله شواهد) ۔
(1) یہ ڈنڈی مارنے والے اس بات سے نہیں ڈرتے کہ ایک بڑا ہولناک دن آنے والا ہے جس میں سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے جو تمام پوشیدہ باتوں کوجانتا ہے ؟ مطلب یہ ہے کہ یہ کام وہی لوگ کرتے ہیں جن کے دلوں میں اللہ کا خوف اور قیامت کا ڈر نہیں ہے۔ احادیث میں آتا ہے، کہ جس وقت رب العالمین کے لئے کھڑے ہوں گے تو پسینہ انسانوں کے آدھے آدھے کانوں تک پہنچا ہوگا۔ ( صحيح، بخاري، تفسير سورة المطففين ) ایک اور روایت میں ہے کہ قیامت والے دن سورج مخلوق کے اتنا قریب ہوگا کہ ایک میل کی مقدار کے قریب فاصلہ ہوگا۔ حدیث کے راوی حضرت سلیم بن عامر کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے میل سے زمین کے مسافت والا میل مراد لیا ہے یا وہ سلائی جس سے سرمہ آنکھوں میں ڈالا جاتا ہے۔ پس لوگ اپنے اعمال کے مطابق پسینے میں ہوں گے، یہ پسینہ کسی کے ٹخنوں تک، کسی کے گھٹنوں تک، کسی کی کمر تک ہوگا اور کسی کے لئے یہ لگام بنا ہوا ہوگا، یعنی اس کے منہ تک پسینہ ہوگا۔ ( صحيح مسلم، صفة القيامة والجنة، باب في صفة يوم القيامة) ۔
(1) سِجِّينٌ، بعض کہتے ہیں سِجْنٌ ( قید خانہ ) سے ہے، مطلب ہے کہ قید خانے کی طرح ایک نہایت تنگ مقام ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ زمین کے سب سے نچلے حصے میں ایک جگہ ہے، جہاں کافروں، ظالموں اور مشرکوں کی روحیں اور ان کے اعمال نامے جمع اور محفوظ ہوتے ہیں۔ اسی لئے آگے اسے (لکھی ہوئی کتاب) قرار دیا ہے۔
یوں نہیں(1) بلکہ ان کے دلوں پر ان کےاعمال کی وجہ سے زنگ (چڑھ گیا) ہے.(2)
(1) یعنی یہ قرآن کہانیاں نہیں، جیسا کہ کافر کہتے اور سمجھتے ہیں۔ بلکہ یہ اللہ کا کلام اور اس کی وحی ہے جو اس کےرسول پر جبرائیل (عليه السلام) امین کے ذریعے سے نازل ہوئی ہے ۔
(2) یعنی ان کے دل اس قرآن اور وحی الٰہی پر ایمان اس لئے نہیں لاتے کہ ان کےدلوں پر گناہوں کی کثرت کی وجہ سے پردے پڑ گئے ہیں اور وہ زنگ آلود ہوگئے ہیں رَيْنٌ، گناہوں کی وہ سیاہی ہےجو مسلسل ارتکاب گناہ کی وجہ سے اس کے دل پر چھا جاتی ہے۔ حدیث میں ہے ”بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ پڑ جاتا ہے، اگر وہ توبہ کر لیتا ہے تو وہ سیاہی دور کر دی جاتی ہے، اور اگر توبہ کے بجائے، گناہ پر گناہ کیے جاتا ہے تو وہ سیاہی بڑھتی جاتی ہے، حتیٰ کہ اس کےپورے دل پر چھا جاتی ہے۔ یہی وہ رَيْنٌ ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے“۔ ( ترمذي، باب تفسير سورة المطففين، ابن ماجه، كتاب الزهد، باب الذنوب - مسند أحمد 2 / 297 ) ۔
لرگزنہیں،بےشک نیکوکاروں کے اعمال نامے علییں میں ہیں .(1)
(1) عِلِّيِّينُ، عُلُوٌّ ( بلندی ) سے ہے۔ یہ سِجِّينٌ کے برعکس، آسمانوں میں یا جنت میں یا سدرۃ المنتہیٰ یا عرش کے پاس جگہ ہے جہاں نیک لوگوں کی روحیں اور ان کے اعمال نامے محفوظ ہیں، جس کے پاس مقرب فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔
Arabic explanations of the Qur’an:
وَمَاۤ أَدۡرَىٰكَ مَا عِلِّیُّونَ ﴿١٩﴾
اورتجھے کیا پتہ کہ عِلِّیین کیا ہے؟
Arabic explanations of the Qur’an:
كِتَـٰبࣱ مَّرۡقُومࣱ ﴿٢٠﴾
(وه تو) لکھی ہوئی کتاب ہے.
Arabic explanations of the Qur’an:
یَشۡهَدُهُ ٱلۡمُقَرَّبُونَ ﴿٢١﴾
مقرب (فرشتے) اس کا مشاہده کرتے ہیں.
Arabic explanations of the Qur’an:
إِنَّ ٱلۡأَبۡرَارَ لَفِی نَعِیمٍ ﴿٢٢﴾
یقیناً نیک لوگ (بڑی) نعمتوں میں ہوں گے.
Arabic explanations of the Qur’an:
عَلَى ٱلۡأَرَاۤىِٕكِ یَنظُرُونَ ﴿٢٣﴾
مسہریوں پر بیٹھے دیکھ رہے ہوں گے.
Arabic explanations of the Qur’an:
تَعۡرِفُ فِی وُجُوهِهِمۡ نَضۡرَةَ ٱلنَّعِیمِ ﴿٢٤﴾
تو ان کے چہروں سے ہی نعمتوں کی تروتازگی پہچان لے گا.(1)
(1) جس طرح دنیا میں خوش حال لوگوں کے چہروں پر بالعموم تازگی اور شادابی ہوتی ہے۔ جو ان آسائشوں، سہولتوں اور دینوی نعمتوں کی مظہر ہوتی ہے جو فراوانی سے حاصل ہوتی ہیں۔ اسی طرح اہل جنت پر اعزاز وتکریم اور نعمتوں کی جوار زانی ہوگی، اس کے اثرات ان کے چہروں پر بھی ظاہر ہوں گے، وہ اپنے حسن وجمال اور رونق وبہجت سےپہچان لئے جائیں گے کہ یہ جنتی ہیں۔
Arabic explanations of the Qur’an:
یُسۡقَوۡنَ مِن رَّحِیقࣲ مَّخۡتُومٍ ﴿٢٥﴾
یہ لوگ سربمہر خالص شراب پلائے جائیں گے.(1)
(1) رَحِيقٌ صاف، شفاف اور خالص شراب کو کہتے ہیں جس میں کسی چیز کی آمیزش نہ ہو۔ مَخْتُومٌ ( سر بہ مہر ) اس کے خالص پن کی مزید وضاحت کے لئےہے، بعض کےنزدیک یہ مخلوط کےمعنی میں ہے، یعنی شراب میں کستوری کی آمیزش ہوگی جس سے اس کا ذائقہ دوبالا اورخوشبو مزید خوش کن اور راحت افزا ہو جائے گی۔ بعض کہتے ہیں،یہ ختم سے ہے۔ یعنی اس کا آخری گھونٹ کستوری کا ہوگا۔ بعض ختام کےمعنی خوشبو کرتے ہیں، ایسی شراب جس کی خوشبو کستوری کی طرح ہوگی۔ ( ابن کثیر) حدیث میں بھی یہی لفظ آیا ہے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ہے ”جس مومن نے کسی پیا سے مومن کوایک گھونٹ پانی پلایا، اللہ تعالیٰ اسے قیامت والے دن الرَّحِيقُ الْمَخْتُومُ پلائے گا، جس نے کسی بھوکے مومن کو کھانا کھلایا، اللہ تعالیٰ اسے جنت کے پھل کھلائے گا، جس نے کسی ننگے مومن کو لباس پہنایا، اللہ تعالیٰ اسے جنت کا سبز لباس پہنائے گا“۔ ( مسند احمد، 3/ 13 ۔ 14 ) ۔
جس پر مشک کی مہر ہوگی، سبقت لے جانے والوں کو اسی میں سبقت کرنی چاہئے.(1)
(1) یعنی عمل کرنے والےکو ایسے عملوں میں سبقت کرنی چاہئے جس کے صلے میں جنت اور اس کی یہ نعمتیں حاصل ہوں۔ جیسے فرمایا، لِمِثْلِ هَذَا فَلْيَعْمَلِ الْعَامِلُونَ ( الصافات:61 ) ۔
Arabic explanations of the Qur’an:
وَمِزَاجُهُۥ مِن تَسۡنِیمٍ ﴿٢٧﴾
اور اس کی آمیزش تسنیم کی ہوگی.(1)
(1) تَسْنِيمٌ کےمعنی، بلندی کے ہیں، اونٹ کی کوہان، جو اس کےجسم سےبلند ہوتی ہے، اسے سِنَامٌ کہتےہیں۔ قبر کے اونچا کرنے کو بھی تَسْنِيمُ الْقُبُورِ کہا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس میں تسنیم شراب کی آمیزش ہوگی جو جنت کے بالائی علاقوں سے ایک چشمے کے ذریعے سے آئے گی۔ یہ جنت کی بہترین اور اعلیٰ شراب ہوگی۔
(1) یعنی انہیں حقیر جانتے ہوئے ان کا استہزا کرتے اور مذاق اڑاتے تھے۔
Arabic explanations of the Qur’an:
وَإِذَا مَرُّواْ بِهِمۡ یَتَغَامَزُونَ ﴿٣٠﴾
اور ان کے پاس سے گزرتے ہوئے آپس میں آنکھ کےاشارے کرتے تھے.(1)
(1) غَمْزٌ کے معنی ہوتے ہیں، پلکوں اور ابروں سے اشارہ کرنا۔ یعنی ایک دوسرے کو اپنی پلکوں اور ابروں سے اشارہ کر کے ان کی تحقیرا ور ان کے مذہب پر طعن کرتے۔
اور جب اپنے والوں کی طرف لوٹتے تو دل لگیاں کرتے تھے.(1)
(1) یعنی اہل ایمان کا ذکر کرکے خوش ہوتے اور دل لگیاں کرتے۔ دوسرا مطلب اس کا یہ ہے کہ جب اپنے گھروں میں لوٹتے تو وہاں خوشحالی اور فراغت ان کا استقبال کرتی اور جو چاہتے وہ انہیں مل جاتا۔ اس کے باوجود انہوں نے اللہ کا شکر ادا نہیں کیا بلکہ اہل ایمان کی تحقیر اور ان پر حسد کرنے میں ہی مشغول رہے۔ ( ابن کثیر ) ۔
اور جب انہیں دیکھتے تو کہتے یقیناً یہ لوگ گمراه (بے راه) ہیں.(1)
(1) یعنی اہل توحید، اہل شرک کی نظر میں اور اہل ایمان اہل کفر کے نزدیک گمراہ ہوتے ہیں۔ یہی صورت حال آج بھی ہے۔ گمراہ اپنے کو اہل حق اور اہل حق کو گمراہ باور کراتے ہیں۔ حتیٰ کہ ایک سراسر باطل فرقہ اپنے سوا کسی کو مومن کہتا ہے اور نہ سمجھتا ہے۔ هَدَاهَا اللهُ تَعَالَى ۔
Arabic explanations of the Qur’an:
وَمَاۤ أُرۡسِلُواْ عَلَیۡهِمۡ حَـٰفِظِینَ ﴿٣٣﴾
یہ ان پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجے گئے.(1)
(1) یعنی یہ کافر مسلمانوں پر نگران بنا کر تو نہیں بھیجے گئے ہیں کہ یہ ہر وقت مسلمانوں کےاعمال واحوال ہی دیکھتے اور ان پر تبصرے کرتے رہیں، یعنی جب یہ ان کے مکلف ہی نہیں ہیں تو پھر کیوں ایسا کرتے ہیں۔ٍ
(1) یعنی جس طرح دنیا میں کافر اہل ایمان پر ہنستے تھے، قیامت والے دن یہ کافر اللہ کی گرفت میں ہوں گے اور اہل ایمان ان پر ہنسیں گے۔ ان کو ہنسی اس بات پر آئے گی کہ یہ گمراہ ہونے کے باوجود ہمیں گمراہ کہتے اور ہم پر ہنستے تھے۔ آج ان کو پتہ چل گیا کہ گمراہ کون تھا ؟ اور کون اس قابل تھا کہ اس کا استہزا کیا جائے۔